استاذِ
محترم حضرت مولانا عبد الحق صاحب اعظمی رحمہ اللہ
کی
شخصیت کے چند پہلو
پچھلے دنوں بر صغیر کے علمی
ودینی حلقے اس وقت سوگوار ہوگئے جب انھیں یہ خبرملی
کہ حضرت مولانا عبد الحق اعظمی (استاذ حدیث دار العلوم دیوبند)
کا مختصر علالت کے بعد موٴرخہ ۳۰/ ربیع الاول ۱۴۳۸ھ
( ۳۰/ دسمبر۲۰۱۶ء) کو انتقال ہوگیا ہے۔
برق رفتار ذرائع ابلاغ سے یہ خبر
آنًا فانا ملک وبیرون ملک پھیل گئی،آپ کے تلامذہ اور متعلقین
نے آپ کے لیے ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کا اہتمام کیا اور خاصی
تعداد نے دیوبند آکر آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔
راقم الحروف شاہجہاں پور کے اسٹیشن
پر ٹرین کے انتظار میں بیٹھا تھاکہ اچانک فون پر کسی طالب
علم نے آپ کے انتقال کی خبر کی تصدیق کرنی چاہی،
چوں کہ مجھے اس وقت تک کوئی اطلاع نہیں تھی اس لیے میں
نے لا علمی کا اظہار کیا ۔ دیوبند فون کرکے تصدیق کی،
تو معلوم ہوا کہ خبر صحیح ہے۔میں ٹرین سے مدرسہ شاہی
مراد آباد آیا جہاں مجھے اگلے روز امتحان لینا تھا، لیکن میں
نے یہ پروگرام کینسل کر دیا اور آپ کے جنازے میں شرکت کی
غرض سے دیوبند آگیا، عصر سے کچھ پہلے نماز جنازہ ہوئی اور قرب
وجوار سے آئے ہوئے ایک جم غفیر نے آپ کی نماز جنازہ میں
شرکت کی۔
ناچیز نے ۱۹۹۴ء
میں آپ سے بخاری جلد ثانی پڑھی، نیز ۲۰۰۱ء
میں دار العلوم میں تقرر کے بعد سے کبھی کبھی آپ سے
ملاقات کے لیے جانا ہوتا، جس کی بنا پر آپ کو قریب سے دیکھنے
کا موقع ملا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ایک ماہر
استاذ، عظیم محدث، پُر تاثیر مقرراوردین کے بے لوث خادم تھے ۔
آپ کی زندگی پیہم تعلیمی ودعوتی خدمات سے
عبارت تھی۔ہم لوگوں کے لیے آپ کی زندگی میں
بہت سے عبرت کے پہلو ہیں۔
آپ ۶/ رجب ۱۳۴۷ھ(۱۷/
دسمبر ۱۹۲۸ء) کو قصبہ جگدیش پور( ضلع اعظم گڑھ) میں
پیدا ہوئے اور ۳۰/ ربیع الاول ۱۴۳۸ھ(
۳۰/ دسمبر۲۰۱۶ء) کودیوبند میں
وفات پائی۔اس طرح آپ نے ہجری سنہ کے اعتبار سے ۹۰سال
عمر پائی۔بلاشبہ ۹۰ سال طویل عمر ہے۔ آپ کی
یہ طویل عمر تحصیل علم و اکتساب فیض، تعلیم وتدریس
اور دعوت واصلاح کے کاموں میں گزری۔اللہ تعالی کی
طرف سے طویل عمر کا ملنا اور اسے کار خیر میں بسر کرنے کا موقع
ملنا یقینا آپ کے باتوفیق ہونے کی دلیل ہے۔
آپ کا تعلق اس نسل سے تھا جس نے اپنے
زمانے کے یگانہٴ روزگار علما ئے کرام سے علم حاصل کیا تھا اور
ان کی زیر تربیت رہے تھے۔ بچپن ہی میں آپ کے
سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا،آپ کی تربیت خطے کے مشہور
عالم ومربی مولانا مسلم صاحب نے کی۔نیزآپ نے اپنے علاقے
کے مدارس میں تعلیم حاصل کی جہاں آپ کو ابو الماثرمحدث کبیر
حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی جیسی عبقری شخصیت
سے اکتساب فیض کا موقع ملا۔اس کے بعد آپ دار العلوم دیوبند آئے
جہاں آپ کو شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی، شیخ
الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی، حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی،
حضرت مولانا فخر الحسن مرادآبادی، حضرت مولانا ظہور حسن دیوبندی،
حضرت مولانا جلیل احمددیوبندی جیسے اساطین علم وفضل
سے علم حدیث پڑھنے کا موقع ملا۔
مدرسہ شخصیت سازی کے عوامل میں
سے ایک اہم عامل ہے، مدرسے کی تعلیم ، اس کے نصاب ، اس کے
اساتذہ اور اس کے ماحول سے آدمی کی شخصیت تشکیل پاتی
ہے۔ آپ نے جن اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ان کا آپ کی شخصیت
پر بڑا اثر تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے اساتذہ کی طرح پڑھنے
پڑھانے کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا یا۔
اسی طرح آپ نے بڑی محنت اور
جانفشانی سے تعلیم حاصل کی ، مجھے یا د ہے کہ ایک
مرتبہ آپ نے فرمایا کہ حدیث کے کسی کا سبق ناغہ نہیں ہوا،
اگرکسی وجہ سے کوئی سبق رہ گیا تو استاذ کے گھر جاکر اُن سے وہ
سبق پڑھ لیا۔
بلاشبہ تحصیل علم میں محنت و
مجاہدہ ، اسباق کی پابندی اور حدیث نبوی کے درس کا غیر
معمولی اہتمام، یہ وہ اسباب ہیں جنھوں نے آپ کی شخصیت
سازی میں موٴثر کردار ادا کیا اور آپ کی مستقبل کی
زندگی کا رخ طے کردیا۔چنانچے زمانہٴ طالب علمی میں
حدیث کے سبق کے اہتمام کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالی نے
فراغت کے بعد آپ کو متداول اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ خاص طور پر حدیث
شریف کی تدریس کا قیمتی موقع بہم پہنچایا ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ
طالب علمی کے زمانے میں طالب علم میں جس فن کا ذوق وشوق پیدا
ہوجاتا ہے اور جس فن پر وہ زیادہ توجہ دیتا ہے مستقبل کی زندگی
میں وہی فن اس کا مشغلہ ٹھہرتاہے۔ چنانچہ یہی آپ کے
ساتھ ہوا۔ آپ نے دیگر مدارس کے علاوہ خود دارالعلوم دیوبند میں۳۶
سال تک بخاری جلد ثانی کا درس دیا۔
آپ کی زندگی ہم لوگوں کے لیے
قابل رشک ہے، آپ کی تدریس کا دورانیہ نصف صدی سے زائد ہے
، اس میں بھی ایک بڑا حصہ حدیث شریف کی تدریس
میں بسر ہوا۔آپ نے فراغت کے بعد اپنے آپ کو پڑھنے پڑھانے کے لیے
وقف کردیا ، چنانچہ پوری مستقل مزاجی اور یکسوئی کے
ساتھ اس میں لگ گئے اور آخری دم تک اسی میں لگے رہے۔
آج کی عجلت پسند اور سیماب
صفت نسل نو کے لیے آپ کی زندگی میں بڑا سبق ہے، جو محنت
وجانفشانی سے گریز کرتی ہے اور کوئی بھی علمی
ودینی کام مستقل مزاجی اور یکسوئی سے کرنے کے لیے
تیار نہیں ہے، ساتھ ہی نتائج وثمرات کو بہت جلد دیکھنا
چاہتی ہے۔اگر آپ کو مادر علمی دار العلوم دیوبند اور دیگر
مدارس میں طویل عرصہ حدیث شریف کی مبارک تدریس
کا قیمتی موقع ملا تو ظاہری اسباب میں آپ کے محنت
ومجاہدہ، پڑھنے پڑھانے میں یکسوئی اور علم حدیث سے گہرے
تعلق کو بڑا دخل ہے۔
سادگی و بے تکلفی آپ کانمایاں
وصف تھا، آپ کی گفتار و رفتار ، رہن سہن، لباس وپوشاک سے سادگی جھلکتی
تھی۔آپ کے دل میں جو بات ہوتی آپ اسے بے تکلف کہہ دیا
کرتے تھے۔ کبھی دل میں کسی کے لیے کوئی بات
نہیں رکھی۔لباس اور کپڑوں کا کبھی اہتمام نہیں کیا
، اسی طرح دار العلوم میں ایک چھوٹے سے کمرے میں تیس
پینتیس سال گزار دیے۔
آپ اپنے تلامذہ اور خوردوں کے ساتھ ہمیشہ
شفقت کا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔ کبھی کبھی آپ سے ملنے
والا لہجے سے یہ محسوس کرتا کہ آپ ناراض ہو رہے ہیں۔لیکن
بہت جلد یہ لہجہ تبدیل ہو جاتا اور بہت نرمی سے گفتگو کرتے۔
اگر کبھی کسی بات پر ناراض بھی
ہوتے تو یہ ناراضگی دیر پا نہیں ہوتی ، چند لمحوں میں
دور ہوجاتی ایسا محسوس ہوتا کہ کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔جو
لوگ آپ کے مزاج کو سمجھتے تھے وہ آپ کے کرخت لہجے اور خفگی سے بالکل کوئی
اثر نہیں لیتے تھے؛ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ یہ وقتی
ہے اور ابھی ختم ہو جائے گی۔
اللہ تعالی آپ کی بال بال مغفرت
فرمائے اور آپ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور آپ کے
پسماندگان اور متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
$$$
---------------------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ1۔2، جلد:101
، ربیع الآخر۔جمادی الاولی 1438 ہجری مطابق جنوری۔فروری 2017ء